ہمارے بچپن اور لڑکپن بلکہ نوجوانی تک ملک میں راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ملک میں امن و سکون اور اعتماد و اعتبار کی فضا تھی۔ بوڑھوں اور خواتین کو دیکھ کر کاروں والے اپنی کاریں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر روک دیتے تھے۔ فوجی علاقوں کے رہائشی حصوں میں کہ جہاں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات ہوتے تھے، وہاں بھی خواتین کو بے روک ٹوک جانے دیا جاتا تھا۔جرائم کی شرح انتہائی کم تھی۔ گو کہ لوگوں کی آمدنی کم تھی مگر اشیاء سستی تھیں۔ملیں کارخانے چلتے تھے اور لوگوں کو روزگار بھی ملتا تھا۔ ہمارا روپیہ اردگرد کے ممالک کے زیادہ مضبوط تھا اور وطن عزیز دیگر ہمسایہ ممالک سے بیشتر معاملات میں آگے تھا۔
یکایک گردشِ حالات نے پلٹا کھایا اور منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔ امن و سکون کی جگہ دہشت گردی و بم دھماکوں نے لے لی۔ لوگوں کا ایک دوسرے پر سے اعتبار اٹھ گیا۔بجلی کی قلت نے زخموں پر نمک چھڑکا اور صنعتوں کا پہیہ جام ہوا۔مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ لوگوں کے روزگار ختم ہونے لگے۔ نتیجتًا جرائم بڑھنے لگے۔روپے کی قدر گری اور وہ ملک جو کبھی ہمسایہ ممالک کا ترقی میں رہبر تھا، اب انھی ممالک کو حسرت سے دیکھتا ہے۔
انھی دنوں ہمیں سعودی عرب میں نوکری کی پیشکش ہوئی وہ تمام عناصر جو ہمیں اپنی نوجوانی کے پاکستان میں میسر تھے، یہاں بھی موجود تھے۔ امن و سکون، اچھی تنخواہ ، اشیاء کی باافراط مناسب قیمتوں پر فراہمی۔ اس کے علاوہ عمرہ و حج۔ سو ہم نے ہاتھوں ہاتھ یہ پیشکش قبول کی۔
ہماری قسمت کو شاید منظور ہی نہیں کہ ہم آرام و سکون سے رہیں۔ کچھ عرصہ تو وہاں آرام و سکون رہا کیونکہ ابھی وہاں ہم ٹھیک سےبسے ہی نہیں تھے۔ادھر ہم وہاں ٹھیک سے بسے، ادھر تقدیر نے اپنا داؤ کھیلا۔ یمن میں حالات خراب ہونے لگے۔سعودی بادشاہت کو خطرہ محسوس ہوا تو وہ بھی اس جنگ میں کود پڑا۔ اپنی تیل کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اس نے دفاع پر لگانا شروع کر دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ پٹرول جو کہ ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل تھاوہ پچاس ڈالر فی بیرل ہو گیا۔یعنی کہ پہلے ہی آمدنی تین گنا کم ہو گئی اور اس پر جو رقم ملی وہ دفاع پر گئی۔ دفاع تو یقینًا ہر کسی کا حق ہے خصوصًا اگر وہ بادشاہ بھی ہو تو۔ جلد ہی ہمیں دفاع کا مطلب بھی سمجھ میں آ گیا جب سعودی عرب میں بھی خودکش حملے ہونے شروع ہوئے۔ گو کہ وہ ہمارے علاقے سے بہت دور تھے مگر ایسا تو پاکستان میں بھی تھا۔ مستزاد یہ کہ اسی برس حج میں کئی برس بعد دوالمناک سانحات ہوئے جن میں ہزار سے زائد حاجیوں نے داعئ اجل کو لبیک کہا۔
یہ کیا کہ جہاں ہم جائیں یہ پریشانیاں، دہشت گردی، بے سکونی اور عدم تحفظ ہمارے پیچھے پیچھے چلے آئیں۔ اس کے برعکس یورپی ممالک اور امریکہ مزے میں ہیں۔ وہاں نہ دہشت گردی نہ ہی امن و امان کا مسئلہ۔ سنا ہے کہ وہاں تو وزیر و سفیر بھی عام لوگوں کی طرح گلیوں بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ مہنگائی ہوئی ہو گی مگر وہاں کسی کو ہم نے اس پر آہ و بکا کرتے اور خود سوزی و خود کشی کرتے نہیں سنا۔ بجلی تو سعودی عرب میں بھی نہیں جاتی تو ان کا تو سوچنا وی ناں۔اور بے روزگاری بھی نہیں۔ اگر ہوتی تو وہ ہر سال لاکھوں لوگوں کو اپنی شہریت کیونکر دیتے۔ مانا کہ وہاں سے بھی کبھی کبھی کوئی ناخوش گوار خبر بھی آ جاتی ہے مگر اسی تناسب سے جس تناسب سے ہمارے ہاں خوش گوار خبریں آتی ہیں۔
بہت سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سب پریشانیوں اور مسائل کی وجہ ہم خود ہیں۔ سعودی عرب کی جس جامعہ میں ہم تدریس سے متعلق ہیں وہاں کا ماحول بھی ہمارے جانے کے بعد تبدیل ہو گیا ہے۔ ہم سے پہلے بس اپنا لیکچر لو اور گھر جاؤ، آنے جانے کی کوئی پوچھ نہیں تھی۔ ہمارے جانے کے بعد نہ صرف یہ وہاں وقت داخلہ و خارجہ کا اندراج لازمی ہوا بلکہ سب پر تدریس کے ساتھ ساتھ انتظامی بوجھ بھی ڈال دیا گیا۔ ان مصائب و آلام کو ہم سے محبت ہو گئی ہے بلکہ عشق ہو گیا ہے۔اس میں یقینًا ہماری شخصیت کا بھی اہم کردار ہے۔ جو بھی دیکھتا ہے گرویدہ ہو جاتا ہے(ویسے تو ہم انکسار میں اس کا تذکرہ نہیں کرتے مگر آپ سے کیا پردہ) اور عاشق تو محبوب کو نہیں چھوڑتا چاہے محبوب پنجابی کی گالیوں سے ہی کیوں نہ نوازے۔ تو یہ ہمارے عاشق تو ہمیں چھوڑنے والے نہیں۔ ۔ ہم پر تو چند دن کوئی مسئلہ نہ آئے تو ہمیں تو پریشانی ہونے لگتی ہے کہ پریشانی ہم سے ناراض تو نہیں ہو گئی کہیں۔ پھر ہم کوئی حماقت کر کے اس پریشانی کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمیں مسلمانوں سے بہت محبت ہے۔ ہم نہیں برداشت کر سکتے کہ وہ ہماری وجہ سے مشکلات میں گرفتار ہوں۔ ہماری خیر ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان دنیا میں خوب ترقی کریں۔ اب خود سے ترقی کرنا تو خاصا مشکل کام ہے۔ اس کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ اپنا من مارنا پڑتا ہے۔ یہ کوئی آسان کام تو ہے نہیں۔ اس سے قدرے آسان کام یہ ہے کہ دوسروں کو ترقی ہی نہ کرنے دی جائے۔ ان کی راہ میں ایسے روڑے اٹکائے جائیں کہ وہ ترقی بھول جائیں اور انھیں اپنے وجود کی فکر پڑ جائے۔ اگر ایسا مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ کر دیا جائے تو مسلمان ممالک از خود ترقی یافتہ ہو جائیں گے یا کم از کم ان کے مقابل ہو جائیں گے۔ اس میں کچھ حرج بھی نہیں کیونکہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔یہ کام چنداں مشکل نہیں۔
اس کے لئے کسی لمبی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں۔کسی دہشت گردی کی کارروائی کی چنداں حاجت نہیں۔ ہمارے وہاں جانے کی دیر ہے۔ وہاں وہ سب کچھ ہو جائے گا جو کہ ہمارے پیارے ملک میں ہو رہا ہے یا پھر سعودی عرب میں۔ امریکا اور مغربی ممالک میں بدامنی،بیروزگاری، معاشی استحکام کا دور دورہ ہو جائے گا اور یوں بیٹھے بیٹھے مسلم ممالک ان کے مقابل آ جائیں گے اور اگر وہاں ہمارا قیام لمبا ہو گیا تو مسلم ممالک خود بخود ترقی یافتہ ہو جائیں گے۔
کون نہیں چاہتا کہ اسلام ایک بار پھر سارے عالم پر چھا جائے۔ یہ یقینًا ایک بڑا اور عظیم مقصد ہے اور بڑے مقاصد قربانی مانگتے ہیں۔ اپنے حصے کی قربانی دینے کو ہم تیار ہیں یعنی کہ ہم بصد دل و جان وہاں جانے کو تیار ہیں۔ آپ بھی آگے بڑھیں۔ ہمارے وہاں جانے اور رہنے کے انتظامات کیجیے اور اس کارِ خیر میں حصہ لیجیے۔ کیونکہ ہمارے پاس وہاں جانے اور رہنے کے اخراجات نہیں۔ آپ سب لوگ چند سو روپے دے کر اس کارِ خیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔ شہباز شریف صاحب اور ملک ریاض صاحب نے اگر یہ کالم پڑھ لیا تو وہ یہ ساری نیکی اپنے نامہء اعمال میں ڈال لیں گے۔ سو دیر نہ کریں۔ ایسے موقع بار بار نہیں آتے۔ اگر کسی نے ہماری مدد نہ کی تو پھر ہم نے واپس پاکستان آجانا۔ سوچ لو کہ پھر کیا ہو گا۔ ہماری یہ پیشکش محدود مدت کے لئے ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا لیں۔ بعد میں نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: اپریل 10th, 2018
زمرہ: طنزو مزاح تبصرے: 6
ٹیگز: Country, Ibn e Riaz, Ibn r Riaz, Ibneriaz, Islam, lecture, mehdud, muddat, peshkash, saudi arabia, Shagufa e seher, Shahbaz Sharif, ابنِ ریاض